* ظالم تھا بہت وہ اور ظلم کی عادت بھی *
ظالم تھا بہت وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی
اس بت کے ستم سہہ کے دکھا ہی دیا ہم نے
گو اپنی طبیعت میں بغاوت بھی بہت تھی
واقف ہی نہ تھا رمزِ محبت سے وہ ورنہ
دل کے لئے تھوڑی سی عنایت ہی بہت تھی
یوں ہی نہیں مشہورِ زمانہ میرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت ہی بہت تھی
کیا دورِ محبت تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کی فرصت بھی بہت تھی
ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی
بلوا کے ہم عاجز کو پشیماں بھی بہت ہیں
کیا کیجئے کم بخت کی شہرت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
|