* کچھ اپنے گلستاں سے کچھ اُن کے گلست *
غزل
کچھ اپنے گلستاں سے کچھ اُن کے گلستاں سے
ہم لے کے پھول آئے دیکھو کہاں کہاں سے
وہ دھول اڑا رہے تھے ہم پر جہاں جہاں سے
دامن بچاکے گزرے ہم بھی وہاں وہاں سے
شدت سے دھوپ کی جو خود ہی پگھل رہا ہو
مجھ کو بچائو ایسے کمزور سائباں سے
ہم آشیاں کریں گے تعمیر آسماں پر
ناگاہ اپنا رشتہ ٹوٹا اگر جہاں سے
اس کے گواہ خود ہیں خورشید و ماہ و انجم
گہرا بہت زمیں کا رشتہ ہے آسماں سے
گل ہو کہ خار دونوں سے دوستی نبھائیں
اتنی سی ہے گزارش اربابِ گلستاںسے
موسم بدل رہا ہے شاید کمال صاحب
ہیں شہر کے مناظر بالکل دھواں دھواں سے
کمال جعفری
R-282/3, Gali No-7, Zakir Nagar, Okhla
New Delhi-110025
Mob: 9818569466
بشکریہ ’’میر بھی ہم بھی‘‘ مرتب: مشتاق دربھنگوی
………………………
|