* ظلمتِ شب میں اجالوں کی تمنّا نہ کر *
ظلمتِ شب میں اجالوں کی تمنّا نہ کرو
خواب دیکھا ہے تو اب خواب کو رسوا نہ کرو
بوجھ سورج کا پڑے کا تو لچک جائیں گی
رات کی سرمئی شاخوں پہ بسیرا نہ کرو
خواب، امید، نشہ، سانس، تبسّم، آنسو
ٹوٹنے والی کسی شے پہ بھروسہ نہ کرو
ہم نے آنکھوں کو جلایا تھا کہ کچھ دھند چھٹے
تم نئی نسل کے سورج ہو تم ایسا نہ کرو
اشک پینے کا ہنر سیکھ لو ہم سے آ کر
جذبئہ دل کو نگاہوں سے ہویدا نہ کرو
موسمی برف ہیں کچھ دیر میں بہہ جائیں گے
ان بدلتے ہوئے رشتوں پہ بھروسہ نہ کرو
یہ فضا راس نہ آئے گی تمہیں اے نجمی
یاد گزرے ہوئے لمحات کی تازہ نہ کرو
|