* جھوٹی سچی آس پہ جینا، کب تک آخر کب ت *
جھوٹی سچی آس پہ جینا، کب تک آخر کب تک
مئے کی جگہ خونِ دل پینا، کب تک آخر کب تک
سوچا ہے اب پار اتریں گے یا ٹکرا کر ڈوب مریں گے
طوفانوں کی زد میں سفینہ، کب تک آخر کب تک
ایک مہینے کے وعدے پر سال گزارا پھر بھی نہ آئے
وعدے کا یہ ایک مہینہ، کب تک آخر کب تک
سامنے دنیا بھر کے غم ہیں اور ادھر اک تنہا ہم ہین
سینکڑوں پتھر ایک آئینہ، کب تک آخر کب تک
|