* یوں ہر اِک کاغذ اُٹھا کر چاک کرنا ک *
یوں ہر اِک کاغذ اُٹھا کر چاک کرنا کیا ہُوا
خاک کی خواہش میں کود کو خاک کرنا کیا ہُوا
یہ بھی کوئی بات ہے کہ مُسکرانا بھی نہیں
ہر بہانے آنکھ کو نمناک کرنا کیا ہُوا
خواہشیں معصوم کلیاں ہیں مہکنے دو انھیں
شہرِ دل کو خواہشوں سے پاک کرنا کیا ہُوا
پیارے پیارے تذکروں کا شہد کانوں میں گھُلے
ذہن کو وقفِ خس و خاشاک کرنا کیا ہُوا
کیسے یخ بستہ سلیقے میں مقیّد ہے حیات
بے طرح پھرنا گریباں چاک کرنا کیا ہُوا
کیوں بدن پر چھا گئے خالدؔ کڑی باتوں کے نیل
وہ تیرا فن زہر کو تریاق کرنا کیا ہُوا
|