غــــزل
نشاط زندگی کے خواب جھوٹے ہوگئے ہوتے
جو ہم بھی کوچۂ نامہرباں میں کھوگئے ہوتے
اٹھاتا کون یہ بار گراں بیدار کرنے کا
بتائو دوستوہم بھی جو تھک کر سوگئے ہوتے
نہ منزل تک ہمارا ساتھ دیتی آبلہ پائی
ہمارے راستے میں خار جو تم بوگئے ہوتے
تمہاری بزم میں کوئی نہیں پہچانتا ہم کو
لگے تھے داغ جو دامن پہ ان کو دھوگئے ہوتے
خزاں بھی تھام کے دل بیٹھ جاتی بیچ رستے میں
مثال چشم گل ہم بھی لہو جو روگئے ہوتے
عبادی باعث دیوانگی ہے سوچنا تیرا
جدھر سے میں گیاہوتا ادھر سے وہ گئے ہوتے
خالد عبادی ،پٹنہ