* ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پا سکے *
غزل
٭……خواجہ میر دردؔ
ارض و سماں کہاں تیری وسعت کو پا سکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
وحدت میں تیری حرف دوئی کا نہ آسکے
آئینہ کیا مجال تجھے منہ دکھا سکے
میں وہ فتادہ ہوں کہ بغیر از فنا مجھے
نقشِ قدم کی طرح نہ کوئی اٹھا سکے
قاصد نہیں یہ کام ترا اپنی راہ لے
اُس کا پیام دل کے سوا کون لا سکے
غافل خدا کی یاد پہ مت بھول زینہار
اپنے تئیں بھلادے اگر تو بھلا سکے
یارب یہ کیا طلسم ہے ادراک و فہم یاں
دوڑے ہزار آپ سے باہر نہ جا سکے
مستِ شراب عشق وہ بے خود ہے جس کو حشر
اے دردؔ چاہے لائے بخود، پھر نہ لا سکے
|