* قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دُور نہ *
غزل
٭……خواجہ میر دردؔ
قتلِ عاشق کسی معشوق سے کچھ دُور نہ تھا
پر ترے عہد کے آگے تو یہ دستور نہ تھا
رات مجلس میں ترے حُسن کے شعلے کے حضور
شمع کے منہ پہ جو دیکھا تو کہیں نور نہ تھا
ذکر میرا ہی وہ کرتا تھا صریحاً لیکن
میں جو پہنچا تو کہا خیر ، یہ مذکور نہ تھا
باوجودے کہ پروبال نہ تھے آدم کے
وہاں پہنچا کہ فرشتے کا بھی مقدور نہ تھا
محتسب آج تو مے خانے میں تیرے ہاتھوں
دل نہ تھا کوئی کہ شیشے کی طرح چور نہ تھا
دردؔ کے ملنے سے اے یار بُرا کیوں مانا!
اُس کو کچھ اور سوا دید کے منظور نہ تھا
**** |