* چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہوکر چشم تَ *
غزل
٭……خواجہ میر دردؔ
چمن میں صبح یہ کہتی تھی ہوکر چشم تَر شبنم
بہارِ باغ تو یوں ہی رہی لیکن کدھر شبنم
عرق کی بوند اس کی زلف سے رخسار پر ٹپکی
تعجب کی ہے جا کہ یہ پڑی خورشید پر شبنم
ہمیں تو باغ تجھ بِن خانۂ ماتم نظر آیا
ادھر گُل پھاڑتے تھے جیب روتی تھی ادھر شبنم
کرے ہے کچھ نہ کچھ تاثیر صحبتِ صاف طبعوں کی
ہوئی آتش سے گل کے بیٹھتے رشکِ شرر شبنم
بھلا ٹک صبح ہونے دو اسے بھی دیکھ لیویں گے
کسی عاشق کے رونے سے نہیں رکھتی خبر شبنم
نہیں اسباب کچھ لازم سبک ساروں کے اٹھنے کو
گئی اڑ دیکھتے اپنے بغیر از بال و پر شبنم
نہ پایا جو گیا اس باغ شے ہر گز سراغ اس کا
نہ پلٹی پھر صبا ادھر نہ پھر آئی نظر شبنم
نہ سمجھا درد ہم نے بھیدیاں کی شادی و غم کا
سحر خنداں ہے کیوں روتی ہے کس کو یاد کر شبنم
***** |