کیا یہ بھی زندگی ہے کہ راحت کبھی نہ ہو
ایسی بھی تو کسی سے محبت کبھی نہ ہو
وعدہ ضرور کرتے ہیں آتے نہیں کبھی
پھر یہ بھی چاہتے ہیں شکایت کبھی نہ ہو
شامِ وصال بھی، یہ تغافل، یہ بے رُخی
تیری رضا ہے مجھ کو مسرّت کبھی نہ ہو
احباب نے دیئے ہیں مجھے کس طرح فریب
مجھ سا بھی کوئی سادہ طبیعت کبھی نہ ہو
لب تو یہ کہہ رہے ہیں کہ اٹھ بڑھ کے چوم لے
آنکھوں کا یہ اشارہ کہ جرات کبھی نہ ہو
دل چاہتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
مجھ کو تیرے خیال سے فرصت کبھی نہ ہو