ایم زیڈ کنولؔ۔۔۔۔۔لاہور
میں نے پوچھا ہی تھا تصوف کا
چھڑ گیا سلسلہ تصوف کا
میں نے پوچھا بتا ہے کیا دنیا
بولا یہ ہے سرِا تصوف کا
میں نے تو سچ کہا مگر اس نے
دل میں رکھا دیا تصوف کا
ظلمتوں سے مکالمہ کر کے
طے ہوا مسئلہ تصوف کا
خودکشی بھوک میں جو کرنی پڑی
مل ِ گیا راستہ تصوف کا
ریگزاروں کی ریت ڈسنے لگی
پوچھ کر مدعا تصوف کا
قلبِ ناداں کی جب بھی بات چھڑی
بولا یہ ہے صِلہ تصوف کا
سانپ تو آستیں نے پالے تھے
ملِ گیا خوُں بہا تصوف کا
مانتا ہی نہیں ہے میری بات
دل بھی کافر ہو ا تصوف کا
آب پر جب کنول ؔنے لکھی غزل
بن گیا بلبلہ تصوف کا
****