درد کو بانٹنے میں نکلی تھی
آپ کو ہارنے میں نکلی تھی
آ گئی چاند رات رستے میں
ظلمتیں پالنے میں نکلی تھی
صبر مُجھ کو پکارتا ہی رہا
جبر کے سامنے میں نکلی تھی
آئینہ خانے مجھ پہ آ برسے
خود کو پہچاننے میں نکلی تھی
نیکیاں بار بن گئی تھیں کنولؔ
آب میں ڈالنے میں نکلی تھی
***********