ہوا کے دُوش پر رکھّے دئیے ہیں
ہماری ہِمّتوں کے زائچے ہیں
یہ کون آیا ہے تیری انجمن میں
در و دیوار گبھرائے ہوئے ہیں
چمن چھوڑا ہے جب سے تتلیوں نے
گُلوں کے رنگ بھی بدلے ہوئے ہیں
سِفارت خامشی کی ہو رہی ہے
صدا کے ہونٹ بھی سِلنے لگے ہیں
خرابوں کا جہاں آباد کر کے
چلے آئے پیاسے میکدے ہیں
جُنوں کا دَم بھی اب گھٹنے لگا ہے
گھٹن نے بال بکِھرائے ہوئے ہیں
تعفّن قید ہو کے رہ گیا ہے
کنولؔ جو آب میں اُترے ہوئے ہیں
***********