ہم نے اپنی بے بسی بھی دیکھ لی
جبر کی دریا دِلی بھی دیکھ لی
درد کی آنکھیں جھپکتی ہی نہ تھیں
زخم کی دیوانگی بھی دیکھ لی
پارہ پارہ وحشتوں کو کر دیا
ابَر کی آوارگی بھی دیکھ لی
چھِن گیا پھر زندگانی کا سکوں
عشق کی وارفتگی بھی دیکھ لی
خارزاروں کو لہو نہلا دیا
خوشبوئوں کی دوستی بھی دیکھ لی
حَبسِ دم نے معجزہ دِکھلا دیا
ابرِ باراں کی گلی بھی دیکھ لی
کر کے خوشبو کو کنولؔ نے آب آب
خاک کی شرمندگی بھی دیکھ لی
*************