دل بے اذان گنبد میں محصور ہو گیا
پھر آپ اپنے آپ سے رنجو ر ہو گیا
سینے سے آ کے ڈور جو سانسوں کی آ لگی
دل اتنی بات پر بہت مغرور ہو گیا
سوچا تھا اب مِلا نہ کریں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ملنا ہی مقدور ہو گیا
سر کو اٹھا کے چلنے نہ پائے کو ئی یہاں
جاری امیرِ شہر کا دستور ہو گیا
لکھا ہوا تھا دار کی آنکھوں میںبے گماں
ٰیہ کون مجھ سے ملنے کو منصور ہو گیا
مرِی انا کی کھڑکیاں مجھ پر برس پڑیں
ہونے کو زیبِ داستاں مشہور ہو گیا
اندھی حقیقتوں سے بصیرت کو چھین کر
خودداریوں کا سار ا نشہ چور ہو گیا
یہ کس کو گرِ تا دیکھ زمیں کانپنے لگی
دروازہ گر پڑا کوی ٔ مفرو ر ہو گیا
جب سے کنولؔ نے آب میں خٰیمہ لگا لیا
خوشبو بسانا آب کا منشور ہو گیا
ایم زیڈ کنوؔل۔۔۔۔۔۔۔لاہور
*****