ذہن نے کھُو دئیے افکار کے سارے جگنو
پھر بھی کہتے ہیں کہ خوشبو سے بدن ہے خالی
پھر سرِ شام لُٹے قافلے عُشّاق کے ہیں
دشتِ اُلفت میں محبت کا چمن ہے خالی
زرد پتوں کا دُھواں اوڑھ کے نیلی چادر
بولا خوشبو سے گُلابوں کا اگَن ہے خالی
کاٹ کر رکھ دیا برگد کی نمو کو جس نے
اُس نے قُمری سے کیا سرو و سمن ہے خالی
خارو خس آیا ہے پھر گُل کی پذیرائی کو
سنتے ہیں طائروں نے کر دیا بن ہے خالی
*************