خواب پلنے لگے دھوپ کی اوس میں
برف بننے لگے دھوپ کی اوس میں
میری چارہ گری کرنے جو آئے تھے
خوں اُگلنے لگے دھوپ کی اوس میں
اُلفتوں کے گلابوں کی دیکھو عطا
خار ہنسنے لگے دھوپ کی اوس میں
میرا زخمِ حِنائی مہکتا رہا
گُل بِکھرنے لگے دھوپ کی اوس میں
خاک زاروں پہ سیپی میں ڈھل کے کنولؔ
مُسکرانے لگے دھوپ کی اوس میں
**********