کِیا ہی تھا اِرادہ خود کشی کا
کھِچا آیا شناسا خود کشی کا
صبا اوڑھے ہوئے صَر صَر کی چادر
لِیے آئی سہارا خود کشی کا
در و دیوار پر کندہ ہوا ہے
گلابوں کا فسانہ خود کشی کا
بہاروں کی سماعت کھو گئی ِپھر
سُنا جب سے ترانہ خود کشی کا
کِسی سیپی کی ٹھوکر کو دیا ہے
کنولؔ نے آبیانہ خود کشی کا
***********