غزل
پھر آیٔنے سے چھِڑ گئی خوابوں کی گفتگو
صبر و شکیب چھین کے یادوں کی گفتگو
دل کے صحیفے دل سے ملاقات کے لئے
سانسوں میں بھر کے لا ؑئے گلابوں کی گفتگو
پیروں کی بیڑیوں نے چھُپا کر حِناؤں سے
لکھی ہتھیلیوں پہ مرادوں کی گفتگو
صحنِ چمن بھی رونے لگا ہائے زار زار
خاروں سے آ مِلی جو بہاروں کی گفتگو
تارو ں کا قافلہ چلا میری انا کے ساتھ
کی روشنی نے بجھتے چراغوں کی گفتگو
سنگ زار آ گئے مُجھے بیدار دیکھ کر
کرنے کو رتجگوں سے عذابوں کی گفتگو
پھر دھوپ کی شفق مرے آنگن میں آ گیٔ
ابر ِ کر م کو دے کے سحابوں کی گفتگو
چشم کنولؔ نے لکھی ہے خاکِ شِفا کے ساتھ
کرب و بلا میں بکھرے گلابوں کی گفتگو
ایم زیڈ کنولؔ
*****