پھر پڑا بہاروں کا واسطہ گلابوں سے
مِل گیا ہے صَر صَر کو راستہ گلابوں سے
خار کھائے بیٹھی ہیں بلُبُلیں محبت سے
گُلبنوں نے کہلایا بے رِیا گلابوں سے
ہوش اُڑ گئے سارے خاک بس گئی مَن میں
چھوڑ بیٹھے گلبن ہیں رابطہ گلابوں سے
خواب کے وہ منظر بھی خواب ہو گئے سارے
تِتلیاں چُرا لائیں رتجگا گلابوں سے
بے کِنار موجوں نے کر دیا کنولؔ سے ہے
خاک کا گِلہ سارا بَرملا گلابوں سے
***********