شبنمی سانسوں میں خوابوں کے دئیے رکھے ہیں
اپنی آہوں کی مُرادوں کے دئیے رکھے ہیں
اب نئی نسل نے ہاتھوں پہ دئیے رکھے ہیں
اپنے اسلاف کے وعدوں کے دئیے رکھے ہیں
آئی پچھّم سے بتانے یہ نسیمِ سحری
اب خزائوں نے بہاروں کے دئیے رکھے ہیں
درد کی آنکھ کو رکھا ہے مُعطّر ہم نے
وصل میں ہجر کے زخموں کے دئیے رکھے ہیں
پھر ہوئی صُبح اُجالوں نے لہُو پھِر اُگلا
ہم نے راتوں میں سویروں کے دئیے رکھے ہیں
جو مجھے چھوڑ گئے اُن کا پتہ ڈھونڈنے کو
بجھتی سانسوں میں ستاروں کے دئیے رکھے ہیں
***************