آبرو کھو گئی چشمِ ناشاد کی
جبر کی میں نے دُنیا جو آزاد کی
پتھّروں کے دریچوں پہ لکھی ہوئی
تھی کہانی محبت کے اجداد کی
سُننے آئیں اُسے درد کی بدلیاں
سُن کے بولیں یہ بِپتا ہے ہمزاد کی
کہکشاں کا جگر سنگِ خارا ہوا
خاک کر کے محبت کو فرہاد کی
میرا غم ہاتھ باندھے ہوئے آ گیا
دل پہ لکھنے حِکایت تِری یاد کی
سانس کی ڈوریاں ٹوٹتی ہی نہ تھیں
جانے ر ختِ سفر نے کیا فریاد کی
یہ جو دیکھا تو پتھر کنولؔ ہو گئے
دیکھ کر اتنی اُلفت زمیں زاد کی
***********