مری بے زبانی زُباں بنی ، مِرے دل کی سن کے حکایتیں
مری خامشی نے کہا مجھے ذرا سوچ لے ذرا سوچ لے
نہ ہی چاندنی، نہ بہار ہے، نہ وہ ابر ہے، نہ خمار ہے
مری آرزئوں نے دی صدا ذرا سوچ لے ذرا سوچ لے
تری رہبری کا بھرم رہے ، مِرے آبلوں پہ کرم رہے
مرے پا شِکستوں کے نا خُدا ذرا سوچ لے ذرا سوچ لے
مری یاد نے جو سجائے تھے وہ چمن تو سارے ہی لُٹ گئے
رہا اب گُلوں سے نہ رابطہ ذرا سوچ لے ذرا سوچ لے
جنہیں آندھیوں سے بچا لیا، تھے دریچے وہ تو جنون کے
کِیا عشق نے اُسے بے رِدا ذرا سوچ لے ذرا سوچ لے
*************