ماہتاب ٹیلوں سے خاک اُڑ رہی ہے پھر
آفتاب گلیوں سے خاک اُڑ رہی ہے پھر
شام کے ڈھلے سائے رات چھا گئی پھر سے
خواب کے جزیروں سے خاک اُڑ رہی ہے پھر
پھول الفتوں کے سب الفتوں سے ِبکھرا کر
درد کی زمینوں سے خاک اُڑ رہی ہے پھر
یاد کا جو دھارا تھا ہو گیا وہ آوارہ
چار ُسو گلابوں سے خاک اُڑ رہی ہے پھر
پھر کنولؔ لہو روئے پھر صدف ہوئے پتھّر
آب کے گھروندوں سے خاک اُڑ رہی ہے پھر
***********