جبر کی کرب و بلا نے دی صلائے عام ہے
عِشق کی شامِ غریباں کی ہوئی پھر شام ہے
تتلیوں کے پیرہن ہونے لگے پھر تار تار
ذلّتوں کی عظمتوں کو مل گیا اِحرام ہے
ٹُوٹ کر چاہا مِرے دُشمن نے مجھ کو اس طرح
ہر گھڑی اس کے لبوں پر بس مِرا ہی نام ہے
بولے نیکی ڈال دو دریا میں اپنی بے گُماں
درد کی دریا دلی نے کر دیا اِدغام ہے
لغزشوں نے حوصلے کو دے دیا پھر حوصلہ
آندھیوں نے بجلیوں کو دے دیا پیغام ہے
بے بسی کے ساز سے اُٹھنے لگی ہے پھر صدا
پھر کسی آنگن میں ٹُوٹا آرزو کا جام ہے
**************