آرزو کی بند گلیوں میں چلے آئے ہیں سانپ
یہ تِری زلفوں کی لَٹ ہے یا کہ پھر کالے ہیں سانپ
درد کے صحرائوں نے گیسو ہیں بکھرائے ہوئے
لگتا ہے پھر سے خوشی کے پائوں نے کُچلے ہیں سانپ
سانپ ہم کو کیا ڈسے گا ہم تو خود ہی سانپ ہیں
ہم نے اپنی آستینوں میں سدا پالے ہیں سانپ
میرے ہی احباب کی آنکھوں میں تصویریں لئے
میرے آنگن میں خوشی سے ناچتے پھرتے ہیں سانپ
پھر اُٹھا کوئی جنازہ ، پھر کہیں گھنگھرو بجے
آرزو کی بند گلیوں میں ، چلے آئے ہیں سانپ
چارہ جوئی کی عطا نے آب میں رکھّے کنولؔ
بے بسی کے ابر کی خوشبو میں اِترائے ہیں سانپ
****************