نئی رُت کے سواگت میں یہ جشنِ برفباری ہے
جہانِ دل کی آیَت میں یہ جشنِ برفباری ہے
تمہاری یاد کا موسم چلا آیا ہے چپکے سے
تمہاری ہی اِشارت میں یہ جشنِ برفباری ہے
یہ کیسا جنوری کی ساعتوں نے صُور پھونکا ہے
سماعت کی سفارَت میں یہ جشنِ برفباری ہے
کہا ہے آرزو کی دُھوپ نے صحرا کی وسعت سے
دلِ ناداں کی طاعت میں یہ جشنِ برفباری ہے
صدائیں زرد پتّوں کی ہیں یا ہے جلترنگ کوئی
خموشی کی اِدارت میں یہ جشنِ برفباری ہے
کہا ہے شام کی رنگینیوں نے صُبحِ کاذب سے
درِ زنداں کی چاہت میں یہ جشنِ برفباری ہے
مزاجِ عاشقاں کا دل جلوں سے پوچھتے کیا ہو
کنولؔ کی اِستراحت میں یہ جشنِ برفباری ہے
*********