فضا میں ہر طرف ہے ِعطر بیزی
ہُوا سب کا شَغَف ہے ِعطر بیزی
لِیے پھرتے ہیں طائرِ آستیں میں
ملا کیسا شَرَف ہے ِعطر بیزی
یہ پتھّر بھی گواہی دے رہے ہیں
نِہاں ثمرِ کہف ہے ِعطر بیزی
مری سانسوں کے جگنو بجھ گئے ہیں
رہِ ظلمت ہدف ہے ِعطر بیزی
کنولؔ سے خوشبوئوں نے کہہ دیا ہے
تِری چشمِ صدف ہے ِعطر بیزی
**************