مِ رے آنگن میں پھِر اُترا دسمبر
مجھے پھر کر گیا تنہا دسمبر
سلگتی لکڑیاں بھیگی ہوئی ہیںِ
نگارِ آب میں اترا دسمبر
بہاروں میں چمن سنولا گیا ہے
کسی گلبن میں پھر ٹھہرادسمبر
مِر ے دو بھائی رخصت ہو گئے ہیں
مری آنکھوں میں پتھرایا دسمبر
شفق نے ماتمی ملبوس پہنا
مجھے لگتا ہے پھر آیا دسمبر
مجھے پھر صبر کی تلقین کر کے
گلے مِل کے بہت رویا دسمبر
چراغِ آرزو پھر گُل ہوا ہے
کنول کو دیکھ کے سہما دسمبر
ایم زیڈ کنول۔۔۔۔۔لاہور
*****