ہجرتوں نے مجھے پُکارا پھِر
یاد کی قبر میں اُتارا پھِر
حسرتیں پھر رہی تھیں آوارہ
خواہشوں نے گلے لگایا پھِر
بند مُٹھی سے اُڑ گئے جگنو
کر کے ظُلمت کو پارا پارا پھِر
صبر کے ایک گھونٹ کے بدلے
شُکر نے لحد میں اُتارا پھِر
ہو گیا پھر ہِرن نشہ سارا
جہل نے آسماں سنوارا پھِر
خوشبوئوں کو کنولؔ کا کر کے گواہ
آب نے گُلستاں سنوارا پھِر
**************