بگُولوں کو خوشی سے نغمگانے کی اجازت ہے
ہُنر اپنی محبت کا جگانے کی اجازت ہے
صدا کے دائروں سے کہہ دیا میری خموشی نے
مِرا لِکھّا ہوا سب کو سنانے کی اجازت ہے
ہوا کا راستہ مسدُود کر دو حُکمِ شاہی ہے
گھٹن کی تتلیاں من میں بسانے کی اجازت ہے
اُڑانوں کے جہاں میں طائروں کو جا کے بتلا دو
شجر سے گھونسلہ اُن کا گرانے کی اجازت ہے
دریدہ پیرہن کو خاکنائوں کی عبائوں میں
بہاروں کی خزاں میں مسکرانے کی اجازت ہے
جَہالت کے صحیفے میں لکھا ہے آب آنگن نے
کنولؔ کی آگہی کو ڈُوب جانے کی اجازت ہے
************