تجارت خار و خس کی ہو رہی ہے
چمن میں آ گیا کوئی سخی ہے
درِ اثبات پر لِکھّا ہوا تھا
کسی کی آرزو کی یہ نفی ہے
لکھی ہے سب گلوں کے پیرہن پر
کہانی بلبلوں نے جو کہی ہے
نئے میزان رائج ہو گئے ہیں
کِسی ٹکسال کی کوزہ گری ہے
لُہو کِس نے محبت کو دیا ہے
یہ کِس کے زخم کی صورت ہنسی ہے
نمک چھِڑکو مِرے زخموں پہ آئو
تمہیں اُلفت نبھانے کی پڑی ہے
گُلوں سے خار بھی یہ کہہ رہے ہیں
کنولؔ کی خاک میں اُترا ولی ہے
************