گُل فروشوں نے دئیے حوصلے سودائی کو
رقص کرتے ہوئے انگار کی انگڑائی کو
مُنجمند کر کے مِرے ذوقِ تماشائی کو
جہل نے خواب دِکھائے مِری دانائی کو
میرے آنگن میں بسے دیکھ محبت کے شجر
آ گئی بادِ صبا حاشیہ پیمائی کو
رنگ و خوشبو کا نشہ چھایا تھا آنگن میں مرے
خُشک پتے بھی چلے آئے پذیرائی کو
گل سے کہنے لگے طائر یہ خوشی میں آ کر
ایک پیمانہ ہے کافی ترے صہبائی کو
یاد کی آخری ہچکی کو میں بھولوں کیسے
اپنی سانسوں میں بسے خواب کی رعنائی کو
درد کی تتلیاں خاروں سے گلے مِل مِل کر
پُرسہ دینے چلی آئیں مری تنہائی کو
مُنفَرِد ہے مِرے آنچل کی کنولؔ زار مہک
خوشبوئیں آنے لگیں میری مسیحائی کو
************