آج پھر ہجر کا بادل میرے گھر آیا ہے
دینے کو میری محبت کا ثمر آیا ہے
ظُلم کی آنکھوں میں ڈھلتے ہوئے سورج کا کلام
سُنتے ہیں کوہِ سماعت میں اُتر آیا ہے
آبلہ پائی نے ہر کوس پہ رکھّا ہے گُہر
شہرِ خُوباں کی سفارت کا گجر آیا ہے
سُر محبت کے جو بکھرے تو یہ معلوم ہوا
درد کی سانسوں میں بسنے کو بشر آیا ہے
جب سے اُترے ہیں کنولؔ آب کے ایوانوں میں
آب زاروں کو سنورنے کا ہنر آیا ہے
*************