|
|
|
Shared Successfully.
|
|
|
|
* راستہ بھٹکتے ہیں *
راستہ بھٹکتے ہیں
منزلوں سے ڈرتے ہیں
آس کے شَناور تو
یاس میں نکِھرتے ہیں
خوشبوئوں کے پیراہن
خار میں اُلجھتے ہیں
جو بجُھائے پھونکوں نے
وہ چراغ جلتے ہیں
وَصل کے مسافر ہیں
فَصل کو ترستے ہیں
آج دل کو رہنے دو
عَقل کو بدلتے ہیں
اَشک میری آنکھوں کے
قہقہوں میں ڈھلتے ہیں
آدمی کی بستی میں
چار سُو فرشتے ہیں
آگہی کے سب دریا
جہل میں ہی گرتے ہیں
مرتبہ ہے سانپوں کا
آستیں میں پلتے ہیں
آنکھ کے مناظر بھی
اب لہو اُگلتے ہیں
آب کی رفاقت میں
دو کنولؔ لرزتے ہیں
*************
|
|
|
|
|
|
|
|
|
You are Visitor Number : 299
|
|
|
|