خار زاروں سے گلے مِلنے کی عادت چاہیے
ہم کو اپنے آپ سے اتنی محبت چاہیے
عشق کی غارت گری نے کر کے رسوا دے دئیے
ایسے ویرانے کہ اب بسنے کو مدّت چاہیے
بے بسی کی سرحدوں پر موت کا پہرہ لگا
ٹوٹی دیواروں کو ِگرنے کی اجازت چاہیے
حَبس کی جل تھل میں برگ و بار بھی سنولا گئے
ابرِ باراں کو برسنے کی سخاوت چاہیے
اُونچے ایوانوں کو گرنے کا سلیقہ آ گیا
راستے کی دھُول کو سنگِ ملامت چاہیے
پھر دِیا کوہِ سماعت نے تکلّم کا جواب
مُہرِ خاموشی کو بھی حرفِ حکایت چاہیے
آئینہ خانوں سے آ کر کیا کنولؔ نے کہہ دیا
خوشبوئیں بولیں ہمیں تھوڑی سی مہلت چاہیے
ایم زیڈ کنولؔ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لاہور