دہکتی آگ میں کُندن ہوئے تو بول اُٹھے
یزیدِ وقت کے آگے یہ ِمحنتوں کے بدن
وفا کا باب میں لکھنے لگی تو یاد آیا
یہ کِس کے درد میں روتے ہیں اُلفتوں کے بدن
تمہاری خوشبوئوں کی چھائوں چاہیے ہم کو
گُلوں سے کہنے لگے آ کے آندھیوں کے بدن
زمین رونے لگی ، آسماں بھی کانپ اُٹھا
لہو لہان ہوئے ہیں صداقتوں کے بدن
خبر مِلی ہے صَبا کو یہ طائروں سے ابھی
خزاں نے بیچ دئیے ہیں لطافتوں کے بدن
زمین زادوں کو خوشبو کا بانکپن دے کر
کنولؔ کی آب میں اُترے ہیں پانیوں کے بدن
*************