* ہزار غم تھے میری زندگی اکیلی تھی *
ہزار غم تھے میری زندگی اکیلی تھی
خوشی جہاں کی میرے واسطے پہیلی تھی
وہ آج بچ کے نکلتے ہیں میرے سائے سے
کہ میں نے جن کے لئے غم کی دہوپ جھیلی تھی
جدا ہوئی نہ کبھی مجھ سے گردشِ دوراں
میری حیات کی بچپن سے یہ سہیلی تھی
چڑھا رہے ہیں وہی آج آستیں مجھ پر
کہ جن کی پیٹھ پہ کل میری ہتھیلی تھی
اب ان کی قبر پہ جلتا نہیں دیا کوئی
کہ جن کی دہر میں روشن بڑی حویلی تھی
وہ جھک کے پھر میری تربت پہ کر رہے ہیں سلام
اسی ادا نے تو ماہر کی جان لے لی تھی
|