* اک نوٹ بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہ *
شگفتہ غزل
اک نوٹ بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ
دیکھی پولیس تو کھینچ لیے مسکرا کے ہاتھ
’’ انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اٹھا کے ہاتھ ‘‘
بھڑکی جو نس تو چھوڑ دیے سٹپٹا کے ہاتھ
چشم زدن میں دے کے اڑنگا پٹخ دیا
ٹاٹا وہ کر رہے ہیں ہمیں اب ہلا کے ہاتھ
سائن نکاح نامے پہ کس شوق سے کیے
اب دیتے پھر رہے ہو دہائی کٹا کے ہاتھ
یہ کیا خبر تھی ہاتھ میں ہو گی یہ ہتھکڑی
پچھتا رہے ہیں ہم تو تمھارے بٹا کے ہاتھ
پوچھا نفی کا ہم نے جو استاد سے سوال
سمجھا دیا جناب نے فوراً گھما کے ہاتھ
غصے سے چائے دینا تیرا آج تک ہے یاد
’’ منہ پھیر کر ادھر کو ادھر کو بڑھا کے ہاتھ ‘‘
پندرہ ہزار عاصیؔ سے اینٹھے دبا کے پاؤں
دس اور لے گئے ہیں وہ اس کا دبا کے ہاتھ
|