* ہر نظر پیار تو ہر لب پہ ہنسی مانگت *
ہر نظر پیار تو ہر لب پہ ہنسی مانگتے ہیں
ہم تو ہر مانگ ستاروں سے بھری مانگتے ہیں
پھول تو خوب ہی لگتے ہیں جہاں چاہیں کِھلیں
ہم تو سرحد بھی گلابوں سے لدی مانگتے ہیں
ہم بھی کیا لوگ ہیں نفرت کے شجر بَو بَو کر
آسمانوں سے محبت کی جَھڑی مانگتے ہیں
ان کی رَہ تکتی ہے تاریخ بھی بے چینی سے
سَر بلندی کو جو نیزے کی اَنی مانگتے ہیں
غیر اڑنے کو بھی کرتے ہیں فضا تازہ تلاش
ہم کہ رہنے کو بھی اِک اندھی گلی مانگتے ہیں
سب کو سلطانئ جمہور کا دعویٰ ہے مگر
اِختیارات بہ اندازِ شہی مانگے ہیں
محمود شامؔ
|