غزل
مہتاب قدر جدہ
اڈّ ا مڈّا ، گلّی ڈنڈا ، ہم نے کھیلے سارے کھیل
کس کو سنائیں کس کس نےتھے، کھیلے ساتھ ہمارے کھیل
غالب اور مغلوب کےدکھڑے ، ماں سے بعد میں کہتے تھے
آتے ہی اسکول سے بستہ پھینکا جیتے ہارے کھیل
بُو بارود کی ، بم کے قضیے ، ان کا بچپن لے ڈوبے
جن کے جذبے چیخ رہے تھے ، آ بچّےغبّارے کھیل
اقلیدس کے مسئلے گوری اہل خرد کے ذمّے ہیں
گُڈا ،گڈّی، خوشبو،جگنو ،آنسو، شبنم ، تارے کھیل
آج سیاست ہوتی ہے ،اب کھیلوں میں وہ بات کہاں
عہد بھی پیارا پیارا تھا کل،اور تھے پیارے پیارے کھیل
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸