* دن کٹ رہے ہیں کشمکشِ روزگار میں *
دن کٹ رہے ہیں کشمکشِ روزگار میں
دم گھٹ رہا ہے سایۂ ابرِ بہار میں
آتی ہے اپنے جسم کے جلنے کی بو مجھے
لٹتے ہیں نکہتوں کے صبو جب بہار میں
گزرا ادھرسے جب کوئی جھونکا تو چونک کر
دل نے کہا یہ آ گئے ہم کس دیار میں
میں اک پل سے رنجِ فراواں میں کھو گیا
مرجھا گئے زمانے میرے انتظار میں
اے کُنجِ عافیت تجھے پا کر پتا چلا
کیا ہم ہمی تھے گردِ سرِ راہگزار میں
|