* یاد کا ایک لمحہ سزا دے گیا *
یاد کا ایک لمحہ سزا دے گیا
کتنی چنگاریوں کو ہوا دے گیا
جس پہ موسم کا کوئی اثر ہی نہیں
وہ مجھے زخم ایسا ہرا دے گیا
کتنا چالاک تھا میرا دشمن مجھے
پہلے احساس پھر آئینہ دے گیا
لغزشِ پا کمالِ ہنر بن گئی
دل جو بہکا نیا راستہ دے گیا
بے نیازی سے چھُو کر ہمیں وہ حسِیں
گمشدہ خواہشوں کا پتا دے گیا
آرزوؤں کے غنچے چٹخنے لگے
کس کا پیغام دستِ صبا دے گیا
سبز ہونے لگا اعتبارِ غزل
وقت منظؔر کو ایسی فضا دے گیا
|