تقاضوں کے رنگ میں *
اس سے کہہ دو
اس سے کہہ دو
دو چار ستم اور ڈھائے
یتیمی کا دکھ سہتے
بچوں کے نالے
ٹوٹے گجروں کی گریہ زاری
جلتے دوپٹوں کے آنسو
عرش کے ابھی
اس پر ہیں
اس سے کہہ دو
زنداں کی دیواروں کا مسالہ بدلے
بےگنہی کی حرمت میں
امیر شہر کی لکھتوں کا
نوحہ کہتی ہیں
اس سے کہہ دو
ان کی پلکوں کے قطرے
صدیوں بے توقیر رہے
پھر بھی ہونٹوں پر
جبر کی بھا میں جلتے
سہمے سہمے سے بول
مسیحا بن سکتے ہیں
اس سے کہہ دو
کڑا پہرا اب ہٹا دے
زنجیریں کسی طاق میں رکھ دے
بھاگ نکلنے کی سوچوں سے
قیدی ڈرتے ہیں
آزاد فضاؤں
بےقید ہواؤں پر
سماج کی ریت رواجوں
وڈیروں کے کرخت مزاجوں کے
پہروں پرپہرے ہیں
آئین کے پنے
تنکوں سے کمتر
رعیت کے حق میں
کب کچھ کہتے ہیں
************