جیون سپنا
آنکھ سمندر میں تھا
جیون سپنا
کہ کل تک تھا وہ اپنا
جب سے اس گھر میں
چاندی اتری ہے
میرے من کی ہر رت
پت جھڑ ٹھری ہے
بارش صحرا کو چھو لے تو
وہ سونا اگلے
مری آنکھ کے قطرے نے
جنت خوابوں کو
یم لوک میں بدلا ہے
کیسے چھو لوں
تری مسکانوں میں
طنز کی پیڑا
پیڑا تو سہہ لوں
پیڑا میں ہو جو اپناپن
آس دریچوں میں
تری نفرت کا
باشک ناگ جو بیٹھا ہے
ہونٹوں پر مہر صبر کی
جیبا پر
حنطل بولوں کی سڑکن
یاد کے موسم میں
خوشبو کی پریاں
یاد کی شاموں کا
جب بھنگڑا ڈالیں گی
آنکھ ہر جاءے گی
آس مر جائے گی
آنکھ سمندر میں تھا
جیون سپنا
چاند اب دریا میں نہیں اترے گا
جذبے لہو جیتے ہیں
معاش کے زنداں میں
مچھروں کی بہتات ہے
سہاگنوں کے کنگن
بک گئے ہیں
پرندوں نے اڑنا چھوڑ دیا
کہ فضا میں تابکاری ہے
پجاری سیاست کے قیدی ہیں
تلواریں زہر بجھی ہیں
محافظ سونے کی میخیں گنتا ہے
چھوٹی مچھلیاں فاقہ سے ہیں
کہ بڑی مچھلیوں کی دمیں بھی
شکاری آنکھ رکھتی ہیں
دریا کی سانسیں اکھڑ گئ ہیں
صبح ہو کہ شام
جنگی بیڑے گشت کرتے ہیں
چاند دھویں کی آغوش میں ہے
اب وہ
دریا میں نہیں اترے گا
تنہائ بنی آدم کی ہمرکاب ہے
کہ اس کا ہمزاد بھی
تپتی دھوپ میں
کب کا
کھو گیا ہے
*****************