پلکوں پر شام
پلکوں پر گزری شام
یاد کا نشتر
ہر صبح راہ کا پتھر
سورج بینائی کا منبع
آنکھیں کھو بیٹھا
ہر آشا زخمی زخمی
ہر نغمہ
عزائیلی اسرافیلی
خون میں بھیگا آنچل
گنگا کا
ہر رستہ چپ کا قیدی
دریا کنارے منہ دیکھے ہیں
بے آب ندی میں
گلاب کی کاشیں
پانی پانی
ہونٹ
سانپوں کے گھر
پلکوں کی شام
ہر شام پر بھاری ہے
ڈرتا ہے اس سے
حشر کا منظر
اب جب بھی
کوئی کنول چہرا
اب جب بھی دیکھتا ہوں
خوف کا موتیا
آنکھوں میں اتر آتا ہے
کلیوں کا جوبن چرا کر
غرض کا جن
پریوں کی اداؤں میں
من آنگن میں
قدم رکھتا ہے
خواہشوں کی انگور بیلیں
سوکھ جاتی ہیں
خوش فہمی کے سورج کی
تاریک کرنیں
ست کے سارے شبد
کھا جاتی ہیں
اگلے داؤ کے یقین پر
جیون کے سب ارمان
مر جاتے ہیں مر جاتے ہیں
آس کے ٹوٹے ٹھوٹھے میں
آشا کے کچھ بول رکھنے کو
غرض کی برکی نہ بن جائے
وشنو چھپنے کو
برہما لوک کا رستہ بھول جاتا ہے
گلاب کے ہونٹوں پر
بے سدھ ہونے کی اچھا
تھرکنے لگتی ہے
کوئی کنول چہرا
اب جب بھی دیکھتا ہوں
خوف کا موتیا
آنکھوں میں اتر آتا ہے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸