مسعود تنہاؔ
کوئی جب مسکرا کر بولتا ہے
مرے دل کا کبوتر بولتا ہے
غرض ہی کیا ہے تم کو میرے دکھ سے
کہ تیرا تو مقدر بولتا ہے
امیرِ شہر سے خائف نہ ہونا
یہاں اب ہر سخنور بولتا ہے
مجھے شرمندگی ہے مفلسی میں
مرے در پر گداگر بولتا ہے
یقینا میں اُسے پہچانتا ہوں
پسِ پردہ جو اکثر بولتا ہے
بہت خاموش رہتا ہے جو تنہاؔ
وہ محفل میں برابر بولتا ہے
****************