* اب تیرے شہر میں آسودگی ملتی نہیں *
اب تیرے شہر میں آسودگی ملتی نہیں
زندگی جو چاہتے ھیں زندگی ملتی نہیں
مل جائے سمندر سے تو دریا نہیں رہتا
ٹھہرے ہوئے پانی میں موج کبھی ملتی نہیں
ھممے کشوںکو اب تیری آنکھوں میں
بیگانگی ملتی ھے بے خودی ملتی نہیں
اوڑھ رکھا ھے چہرہ اپنے چہروں پر
دوستوں میں بھی اب وہ سادگی ملتی نہیں
مظہر فریب ھو گیا ھے یہاں زندگی کا نام
عشق کا دعویٰ ھے اور دیوانگی ملتی نہیں
|