* ظلم کی تاریک راہوں میں روشن اک قند *
ظلم کی تاریک راہوں میں روشن اک قندیل تو ہو
شہر بچانا ہے لوگو لیکن کوئی فصیل تو ہو
صاحب خواب کو کچھ تو تعبیر کا حق تم ملنے دو
تاج محل نہ سہی کٹیا کی تکمیل تو ہو
دستور بدل کر رکھ دینگے ہم دنیا کے ایوانوں کا
رستہ ذرا سا ملنے دو سوچ ذرا تبدیل تو ہو
منزل کی جستجو میں اک دیوانہ یہ کہتا چلا گیا
ان پر آشوب رستوں میں پیارے سنگ میل تو ہو
محبت گئے دنوں کی داستان تو نہیں ہے مظہر
دیوانہ میں بھی بن جاؤں کوئی صورت جمیل تو ہو
|