* پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے *
پوچھتے ہو تو سنو کیسے بسر ہوتی ہے
رات خیرات کی صدقے کی سحر ہوتی ہے
سانس بھر آنے کو جینا نہیں کہتے یا رب
دل ہی دکھتا ہے نہ آستیں تر ہوتی ہے
جیسے جاگی ہوئی آنکھوں میں ُچبھیں کانچ کے خواب
رات اس طرح دیوانوں کی بسر ہوتی ہے
غم دشمن ہے میرا غم ہی کو دل ڈھونڈتا ہے
ایک لمحے کی جدائی بھی اگر ہوتی ہے
ایک مرکز کی تلاش ایک بھٹکتی ُخوشبو
کبھی منزل کبھی تمہید سفر ہوتی ہے
(مینا کماری ناز)
|